اشاعتیں

ڈئیر ڈائری!

تصویر
وہ آدھے گھنٹے سے ایسے ہی ڈائری اپنے سامنے کھولے بیٹھا تھا، پین اس کے ہاتھ میں تو تھا لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جو لکھنا چاہ رہا ہے کیسے لکھے، کیونکہ جو باتیں اس کے ذہن میں تھیں وہ پوری طرح مربوط نہ ہو پا رہی تھیں، آخر کچھ دیر مزید خالی آنکھوں سے ڈائری کو گھورنے کے بعد اس نے لکھنا شروع کیا تھا ڈئیر ڈائری!  کیسی ہو؟؟  میں نے آج تک تم سے دوسروں کی بات ہی کی ہے غیروں کے تذکرے ہی کیے ہیں... کہ فلاں دوست سے آج ملاقات ہوئی، فلاں رشتے دار نے آج یہ کہا، فلاں کو مس کر رہا ہوں فلاں کی بات سے دل دکھا وغیرہ وغیرہ، سوچ رہا ہوں آج تم سے تمہاری بات کروں...ویسے تم بھی حیران ہو رہی ہو گی کہ اسے اچانک سے کیا ہوا.... تو سنو... ہوا یہ کہ کل دوستوں کے وٹس ایپ گروپ میں حاشر کو جانے کیا سوجھی کہ سب کے لیے ایک سوال چھوڑا کہ وہ کس کو اپنا بہترین دوست سمجھتے ہیں... اپنے بھائی کو اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہوئے اس سوال کا سب سے پہلا جواب خود حاشر نے ہی دیا.... برہان نے اپنی پھوپھو کے بیٹے کا نام لیا... صالح کے خیال میں حاشر اس کا بہترین دوست تھا... جب کہ اکثریت نے مجھے ہی اپنا بہترین دوست گردانا... جب میری

حرامدہ

اس کا نام جمال تھا اور وہ تھا بھی گورا چٹا یہ  ستواں ناک بڑی بڑی آنکھیں آنکھیں... اور اگر نہ بھی ہوتا تو ہر ماں کو جیسے اپنی اولاد حسین لگتی ہے اس کی ماں کے لیے بھی اس کا بیٹا جمال ہی ہوتا جس نے اس کا نام رکھا تھا... لیکن اسے ہر کوئی حرامدہ کہہ کے بلاتا تھا... او حرامدے کدھر جا ریاں، او حرامدیا ذرا نٹھ کے سغٹاں (سگریٹ) تے پھڑ لیا.... او حرامدیا مجھاں نوں پٹھے پا دے.....اسے اس کے اصل نام سے بس اس کی  ماں بلاتی تھی اور جب وہ مری تو اس کا اصل نام بھی اسکے ساتھ ہی مر گیا.... اس کی ماں گاؤں کے چودھری کے گھر کام کاج کر کے اپنا اور اپنے جمال کا پیٹ پالتی تھی.... جمال جب کبھی اپنی ماں سے پوچھتا کہ اس کو گاؤں والے اس کے اصل نام کی بجائے گالی دے کے کیوں بلاتے ہیں تو اس کی ماں بات ٹال جاتی... اس کی ماں نے اسے یہی بتایا ہوا تھا کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے کے کچھ ہی دن بعد مر گیا تھا... پھر ایک دن اس کو اس کے سوال کا جواب مل گیا تھا.... سردیوں کی ایک شام اس کی ماں کو بخار نے آ لیا تھا اور رات ہونے تک اس پہ غشی کے دورے پڑنا شروع ہو گئے تھے... ماں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور اس راز سے پردہ اٹھا دیا ت

جادو کی آخری جپھی

 یونیورسٹی سے نکلا ہاسٹل میں اٹکا پندرھواں حصہ آج 15 نومبر ہے۔۔۔۔اور میں سوچ رہا ہوں شائد مجھے یہ حصہ نہیں لکھنا چاہئے۔۔۔یونیورسٹی اور ہاسٹل لائف سے وابستہ اس یادداشت نے پڑھنے والوں کو اکثر ہنسایا ہی ہے۔۔۔۔ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھیری ہے۔۔۔۔لیکن میری ہاسٹل اور یونیورسٹی لائف کا یہ والا حصہ کچھ کو رلائے گا۔۔۔۔اور میں جانتا ہوں کون کون روئے گا۔۔۔۔۔اور جو نہیں روئیں گے ان کی آنکھیں ضرور نم ہوں گی۔۔۔۔مجھے شائد یہ حصہ نہیں لکھنا چاہئے تھا۔۔۔۔۔لیکن نہ لکھنا شائد اپنی اس یادداشت کے ساتھ زیادتی ہوتی..... پانچ سال پہلے بھی ایک 15 نومبر آیا تھا۔۔۔۔۔پچھلے روز گھر پہ قیامت گزر گئی تھی اور میں بےخبر تھا۔۔۔۔۔15 نومبر کی صبح ہم کلاس روم کے سامنے ڈین صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔۔ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی تھی۔۔۔۔۔میں نے کال اٹینڈ کی دوسری طرف سے ابو کے کوئی کولیگ بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔بیٹا منظور صاحب کا کچھ پتہ چلا؟؟۔۔۔۔۔میرےتو کچھ علم میں ہی نہیں تھا۔۔۔۔پھر انہوں نے خود ہی بتایا تھا کہ ابو کل سے لاپتہ ہیں۔۔۔۔۔میں نیچے آ کر لائبریری کے سامنے والے بینچ پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔گھر کال کی تو امی جان رو رہی تھیں۔۔

ہنوز دلی دور است

نادر شاہ اور محمد شاہ رنگیلا تاریخ کے اوراق سے بہت زیادہ دیر پہلے کی بات نہیں ہے ..... یہی لگ بھگ کوئی دو سو سال پیچھے ایران میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا نام تھا اس کا نادر شاہ کہتے ہیں وہ ایران سے اٹھا قندھار فتح کیا پھر کابل پہ چڑھ دوڑا اور پھر درۂ خیبر سے گزرتا ہوا پہنچا نئے پاکستان کے دارالحکومت پشاور.... اور پھر لاہور سے ہوتا ہوا حملہ آور ہوا دہلی پہ تو بھئی وہ اتنی دور سے دہلی کیوں آن پہنچا وجہ تھا محمد شاہ رنگیلا اور اسکی چھچھوری حرکتیں مغلیہ سطنت کا تیرہواں فرمانرواں, نام تو اسکا روشن اختر نصیر الدین محمد شاہ تھا.....لیکن لوگوں میں مشہور محمد شاہ رنگیلا کے نام سے تھا. وجہ تھی اسکی چھچھوری حرکتیں.....دہلی  ہندوستان کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا اور ہر بادشاہ نے جیسے ٹھیکہ لیا ہوا تھا اپنی حرکتوں سے اس کے اجڑنے کا بندوبست کرنے کا....... اور رنگیلے شاہ نے بھی اس کارخیر میں خاطر خواہ حصہ لیا......کہنے کو وہ بادشاہ تھا لیکن مزاج ہیجڑوں والا پایا تھا.....وہ بہت شوقین مزاج اور رنگین مزاج واقع ہوا تھا.......دل کرتا تو سارے دربار کو لڑکیوں کے کپڑے پہنا کے ریمپ پہ کیٹ واک کروا کے فیشن شو کرو

لیلیٰ مجنوں

تاریخ کے اوراق سے لیلیٰ مجنوں آخری حصہ دوسری طرف لیلیٰ کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اتنا قبول صورت لڑکا اس کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہے۔ گفتگو موسم کےحال سے شروع ہوئی اور گھر میں پکے ٹینڈوں سے ہوتی ہوئی ایک ساتھ جینے مرنے کی قسموں اور عہد و پیماں تک جا پہنچی۔ مجنوں کی آنکھوں پہ پڑی دھند آہستہ آہستہ چھٹ رہی تھی اور لیلیٰ کا سراپا سنی لیونی سے بپاشا باسو میں تبدیل ہوتا نظر آرہا تھا۔ لیکن اسے یہ بھی قابل قبول تھا کیونکہ وہ خود بھی کوئی بریڈ پٹ نہیں تھا اور دوسری بات یہ کہ اسے "لو ایٹ فرسٹ سائٹ" ہوا تھا۔ دوبارہ جلد ملنے کا وعدہ کر کے دونوں نے اداس دل کے ساتھ اپنی اپنی راہ لی لیلیٰ تو جیسے ہواؤں میں اڑ رہی تھی آج لگتا ہے میں ہواؤں میں ہوں آج اتنی خوشی ملی ہے ویسے تو مجنوں نے اسے اسی شکل و صورت کے ساتھ قبول کر لیا تھا لیکن وہ کیا ہے کہ عشق میں پڑنے کے بعد انسان کو ہر وقت سجنے سنورنے کا شوق چڑھا رہتا ہے اور لیلیٰ کے دل میں بھی گورے ہونے کا شوق جیسے پھر سے جوان ہو گیا تھا اور اس نے اس مقصد کے لئے نئے ٹوٹکے آزمانا شروع کر دیے تھے مجنوں نے اس دن واپس آ کر اماں کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ وہ

لیلیٰ مجنوں

تاریخ کے اوراق سے لیلیٰ مجنوں حصہ سوم مجنوں کی آنکھوں کے سامنے سنی لیونی کا سراپا گھوم گیا اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ ریکوئیسٹ بھیجی اور پھر یوٹیوب پہ سنی لیونی کے گانوں کی ویڈیوز دیکھنا شروع ہو گیا اسے محسوس ہو رہا تھا کہ تھوڑا اور انتظار بس سپنوں کی شہزادی ملنے ہی والی ہے ابھی اس نے تیسرا گانا پلے کیا ہی تھا کہ اماں کی جوتی اس کی کمر پہ پڑی تھی وہ بلبلا کے رہ گیا تھا پیچھے مڑ کے دیکھا تو اماں جوتی ہاتھ میں پکڑے اس کے سر پہ کھڑی تھی "وے کنجرا کی سویرے سویرےکنجر خانہ لا کے بے گیا" اس سے پہلے کہ دوسری جوتی پڑتی مجنوں نے چھلانگ لگائی اور دوسرے لمحے وہ کمرے سے باہر تھا وہ کافی دیر سے آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ خود کو کوسے یا اپنی قسمت کو پتہ نہیں اور کتنی دیر تک وہ اس احساس کمتری کے ساتھ اپنا جائزہ لیتی رہتی کہ اماں کی آواز نے اسکی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا "ارے کلموہی دودھ ابل گیا  ابھی تو ایسی شکل کے ساتھ اتنی دیر شیشہ دیکھتی ہے اگر تھوڑی سوہنی ہوتی تو پتہ نہیں کیا کرتی" اوہ آج پھر دودھ ابل گیا وہ بڑبڑاتے ہوئے باورچی خانے کی طرف

لیلیٰ مجنوں

تاریخ کے اوراق سے   لیلیٰ مجنوں حصہ دوم  مجنوں حیران تھا کہ اتنی جلدی فرینڈ ریکوئیسٹ... ؟؟. اس نے سوچا اتنی جلدی تو مارک زکربرگ ہی ریکوئیسٹ بھیج سکتا ہے پھر اس نے سوچا ہو نہ ہو یہ راجو کی حرکت ہو گی کیونکہ راجو اسے اپنے فیک آئی ڈیز کے قصے سناتا رہتا تھا کہ کیسے اس نے لڑکی کے نام کی آئی ڈی بنا کے لڑکوں کو پھانسا خیر اس نے پروفائل اوپن کی ڈی پی میں کسی حسینہ کے ہونٹ اور ناک کی چونچ دکھائی دے رہی تھے اسے ہونٹ اور ناک تھوڑے شناسا سے محسوس ہوئے لیکن باوجود کوشش کے اسے یاد نہیں آرہا تھا کہ اس نے یہ ہونٹ اور ناک کس کے چہرے پر دیکھے ہیں پرنسیس نے بائیو میں لکھا تھا     "Works at Student "  اور پھر جیسے ہی اسکی نظر "لِوز ان پتوکی" پہ پڑی اسکا ماتھا ٹھنکا اور وہ پرنسیس کو بلاک مارنے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے بلقیس کی آواز آئی  " آپ نے میری ریکوئیسٹ ایکسیپٹ نہیں کی ابھی تک ... "  اور مجنوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچپن کی منگیتر کو فیس بک پہ ایڈ کرنا پڑا اسکے بعد اس نے راجو سمیت اپنے بچپن کے دوستوں کو ریکوئیسٹس بھیجیں ابھی وہ ہمسائیوں کی انوری کو ریکوئیسٹ بھیجنے ک